افغانستان میں امن چاہتے ہیں تو کیا کرنا ہوگا، افغان طالبان نے امریکہ کو واضح پیغام دیدیا

کابل(نیوز ڈیسک) افغان طالبان نے کہا ہے کہ اگر امریکا نے افغانستان سے انخلا کے حوالے سے معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے رواں سال ستمبر کے بعد بھی افغان سرزمین پر اپنے فوجی برقرار رکھے تو وہ جواب دینے کا حق محفوظ رکھتے ہیں۔طالبان ترجمان سہیل شاہین نے قطری نشریاتی ادارے الجزیرہ کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ اگر امریکا نے معاہدے کے برعکس 11ستمبر 2021 کو انخلا کی تاریخ کے بعد بھی افغانستان میں اپنے دستے برقرار رکھے تو طالبان ردعمل کا حق محفوظ رکھتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ امریکا نے دستوں کو افغانستان میں برقرار رکھا تو یہ اس معاہدے کی خلاف ورزی ہو گی

جس کا مقصد امریکی تاریخ کی سب سے طویل ترین جنگ کا خاتمہ ہے۔خیال رہے کہ گزشتہ برس طالبان اور امریکا کے درمیان معاہدہ ہوا تھا جس کے تحت یہ طے پایا تھا کہ امریکا، افغانستان سے تمام غیر ملکی فوجیں واپس بلالے گا اور نئے امریکی صدر نے رواں سال اپریل میں 11 ستمبر تک فوجی انخلا کا اعلان کیا تھا۔طالبان ترجمان نے کہا کہ ہم نے دوحہ معاہدے پر دستخط کیے تھے اور اس میں امریکا کے ساتھ 18ماہ تک مذاکرات کیے گئے تھے، انہوں نے وعدہ کیا تھا کہ وہ افغانستان سے تمام امریکی افواج، مشیروں اور کنٹریکٹرز کا انخلا یقینی بنائیں گے۔ان کا کہنا تھا کہ اگر امریکا نے اس بات پر عمل نہ کیا تو یہ معاہدے کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہو گی، ان کے یہاں رہنے کا مطلب یہ ہو گا کہ وہ اپنا قبضہ جاری رکھیں گے، اگر وہ خلاف ورزی کرتے ہیں تو ہمارے پاس بھی ردعمل دینے کا حق ہو گا۔واضح رہے کہ جمعرات کو امریکی حکام نے خبر رساں ایجنسی اے پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ 20سال سالہ جنگ کے خاتمے کے سلسلے میں امریکی افواج کے انخلا کے بعد بھی سفارتی عملے کے تحفظ کے لیے افغانستان میں لگ بھگ 650 امریکی فوجی موجود رہیں گے۔یاد رہے کہ امریکی صدر جو بائیڈن نے اپریل میں 11 ستمبر تک افغانستان سے امریکی افواج کے مکمل انخلا کا اعلان کیا تھا۔اس کے بعد امریکی حمایت یافتہ افغان فورسز اور طالبان کے درمیان لڑائیوں میں اضافہ ہوا ہے۔پینٹاگون کے اندازے کے مطابق افغانستان کے 419 اضلاع میں سے اب 81 طالبان کے کنٹرول میں ہیں۔افغانستان سے نصف سے زائد امریکی فوج کا انخلا ہو چکا ہے اور اگلے چند ہفتوں میں یہ عمل مکمل ہوجائے گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں