پیزا کڑاہی ۔۔۔ تحریر: شیر محمد اعوان

کراچی میں بارشوں سے ڈوبتے لوگوں اور تباہ کاروبار کے بہتے تختوں کے ارد گرد تیرتی سیاسی کشتیوں کے ملاح لوگوں کے مسائل حل کرنے کی بجائے آپس میں سینگ لڑانے اور خود کو اصل خدائی فوجدار ثابت کرنے میں لگیں ہیں. ایک طرف میڈیا کےکان انکی نوک جھونک اور ڈوبتی عوام کے نوحے سے دکھتے ہیں مگر دوسری طرف ناک برانڈڈ پیزے کی مسحور کن خوشبو سے پھولے نہیں سماتی.سیاسی موسم کا حال بتانا قدرے آسان اور دفاعی برفباری کا مشکل ہوتا ہے. مگر ان تمام حسوں سے بے حس رہتے ہوئے چھٹی حس کے مشاہدات سے چھٹکارا پھر بھی ممکن نہیں ہوتا. اس کیلیے میڈیا آپ کو سو

پچاس نوکریوں کی خبریں پہنچاتا ہے تا کہ اس بحث کے خمار سے فاسٹ فوڈ کا بخار اتر جائے.میڈیا کے اینکرز صحافت بچائیں تو نوکری نہیں بچتی اور نوکری بچائیں تو صحافت بچانا مشکل ہے. بحرحال “تاریخ” ایک ایسا پردہ ہے جس کے پیچھے کچھ نہیں چھپتا.سیاستدانوں کیطرح محکمہ. زراعت کی تاریخ تاریک سہی پر اپنی جگہ ایک تاریخ ہے.یہ پرانی قبروں پر نئے کتبے لگانے کے تجربات کرتا رہا اور بعد میں خیال آیا کہ ایک بار کتبہ تبدیل کرنے کے ساتھ قبر بھی نئی بنا لیں. بس اس اچھوتے خیال نے ان سے ہائیبرڈ جمہوریت کا ایک ایسا مزار تعمیر کروا دیا جس کی کرامات سے زائرین کا تانتا بندھ گیا. معیشت، منہگائی، بےروزگاری، گورنس غرض ہر صنف آپکو مزار کے باہر گریہ زاری کرتی نظر آئے گی اور روز مزار کی چادریں بدلتا محکمہ زراعت اب پھر سے تھکے ہارے تاجر کی طرح نئی دکان کھولنے کے چکر میں ہے. سیاسی پنڈت اور میڈیا حوالدار اس پر خاموش نظر آتے ہیں. نوکری بچانے والے صحافی روز آپ کو حب الوطنی اور مثبت مصوری کے پاپڑ بیلتے نظر آتے ہیں. الفاظ اور اعداد و شمار کا ایسا ہیر پھیر یقینا عام آدمی کو پھیر کے رکھ دیتا ہے. دوسری طرف حقائق بتانے یا صحافت بچانے والوں کو نوکری کے ساتھ جان کے بھی لالے پڑ رہے ہیںجمہوری نمائندے خاص طور پر اپوزیشن والے میڈیا سے زیادہ قابل ترس حالت میں ہیں. وہ پیزا کرڑاہی سے لقمہ بھی لگانا چاہتے ہیں مگر اس طرف جاتے پاوں بچا بچا کے رکھ رہے ہیں. اب اس صورت حال میں ایک ہی شوق پورا ہو سکتا ہے یا تو آپ پیزا کڑاہی کا نوالہ کھائیں یا پاوں بچائیں. مزار کے باہر لگے رش کی وجہ سے پاوں بچانا بھی اب

کچھ لوگوں کو ضروری لگ رہا ہےانکی خواہش ہے کہ اس بار بوٹ انکے پاوں میں فٹ آئے.لب لباب یہ ہے کہ دور سے دیکھنے والوں کو بندوق اور کندھا ایک فرش پر نظر آتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے بندوق چھوڑنا چاہتی ہے لیکن کندھا کمبل مزاج بن گیا ہے. یہ وہ صورت حال ہے جس کی وجہ سے ساری سیاسی ہلچل پیدا کی جا رہی ہے. اس کیلیے سندھ میں جلد نئی چھیڑ چھاڑ اور ردعمل نظر آئے گا. پنجاب میں بڑی جماعت کے صدر سیاسی شطرنج پر چیک میٹ سے بچنے بچانے میں مصروف ہیں اس لیے ہلچل بڑھانے کیلیے لندن سے پاکستان کا فاصلہ سمیٹا جا سکتا ہے. اے پی سی اگر اسلام اباد کے ٹھنڈا ہوتے موسم کو گرمانے کا عندیہ دیتی ہے تو اس ممکنہ نتائج کے ساتھ ساتھ پیزا کڑاہی بھی ٹھنڈی ہو کر دسترخواں سے غائب ہو جائیگی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں